Friday, August 25, 2023

شیخ عبدالقادر جیلانی

 شیخ عبدالقادر جیلانی، جسے غوث اعظم (جس کا مطلب ہے "سب سے بڑا مددگار") کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک ممتاز اسلامی اسکالر، فقیہ، صوفیانہ، اور عالم دین تھے۔ انہیں اسلامی دنیا میں خاص طور پر صوفی حلقوں میں ایک انتہائی قابل احترام شخصیت کے طور پر پکارا جاتا ہے۔ ان کا پورا نام شیخ محی الدین ابو محمد عبدالقادر الجیلانی ہے۔


شیخ عبدالقادر جیلانی کے متعلق اہم نکات:

1. **زندگی اور پس منظر:** وہ موجودہ ایران کے شہر جیلان میں 1077 عیسوی میں پیدا ہوئے۔ بعد میں وہ بغداد چلے گئے، جہاں انہوں نے اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ گزارا۔

2. **صوفی حکم:** شیخ عبدالقادر جیلانی قادریہ صوفی حکم کے بانی ہیں، جو اسلامی دنیا میں سب سے زیادہ وسیع اور بااثر صوفی حکموں میں سے ایک ہے۔ قادریہ حکم روحانی تطہیر، خدا کا قرب حاصل کرنے اور دوسروں کی مدد کرنے پر زور دیتا ہے۔

3. **تعلیمات اور تحریریں:** وہ روحانیت، اخلاقیات اور تصوف کے راستے پر اپنی تعلیمات کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس کی تعلیمات نے خود نظم و ضبط، عاجزی، اور خدا کی یاد کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر متعدد کتابیں اور مقالے بھی تصنیف کیے جن میں سے اکثر کا آج بھی علماء اور صوفیاء مطالعہ کر رہے ہیں۔

4. **معجزات اور روحانی اتھارٹی:** شیخ عبدالقادر جیلانی کا تعلق بے شمار معجزات سے ہے، جنہیں اکثر ان کے پیروکار ان کی روحانی اتھارٹی اور الٰہی سے تعلق کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

5. **وراثت:** ان کی تعلیمات اور قادریہ صوفی حکم نے اسلامی روحانیت کی ترقی پر دیرپا اثر ڈالا ہے۔ ان کے پیروکار، جو قادری صوفی کے نام سے جانے جاتے ہیں، دنیا کے مختلف حصوں میں ان کی تعلیمات کو پھیلاتے ہیں، اور بغداد میں ان کا مزار بہت سے لوگوں کے لیے زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔

6. **وفات:** آپ کا انتقال 11 ربیع الثانی 1166 عیسوی (536 ہجری) کو بغداد، عراق میں ہوا۔ بغداد میں ان کا مزار، جسے "درگاہ شیخ عبدالقادر جیلانی" کہا جاتا ہے، ایک اہم روحانی اور مذہبی مقام ہے۔

یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی کی تعظیم اور تعظیم مختلف اسلامی برادریوں اور علماء میں مختلف ہے۔ اگرچہ صوفی روایات میں ان کی بہت زیادہ عزت کی جاتی ہے، لیکن اسلام کی مختلف شاخوں میں ان کی زندگی کے مخصوص پہلوؤں اور تعلیمات کے بارے میں اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔

Wednesday, August 23, 2023

نظام الدین اولیاء

 نظام الدین اولیاء (1238–1325) ہندوستان کے ایک مشہور صوفی بزرگ اور روحانی پیشوا تھے۔ آپ کا پورا نام شیخ خواجہ سید محمد نظام الدین اولیاء تھا، اور انہیں اکثر "حضرت نظام الدین" یا "نظام الدین اولیاء" کہا جاتا ہے۔ وہ تصوف کے چشتی ترتیب میں ایک مرکزی شخصیت تھے، جس نے محبت، عقیدت، اور روحانی مشق پر زور دیا تھا کہ وہ الہی سے جڑنے کا ذریعہ ہے۔


نظام الدین اولیاء کی زندگی اور تعلیمات کے اہم پہلو یہ ہیں:

1. **روحانی تعلیمات:** نظام الدین اولیاء نے باطنی عقیدت اور دل کی تطہیر کی اہمیت پر زور دیا۔ اس نے سکھایا کہ کوئی شخص محض بیرونی رسومات پر توجہ دینے کے بجائے حقیقی محبت اور خلوص کے ذریعے خدا کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔

2. **صوفی حکم کی قیادت:** وہ اپنے روحانی مرشد شیخ فرید الدین گنج شکر کے انتقال کے بعد چشتی صوفی حکم کے سربراہ بن گئے۔ ان کی قیادت میں، چشتی حکم نے بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل کی اور متعدد پیروکاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

3. **سادگی اور عاجزی:** نظام الدین اولیاء اپنے سادہ اور شائستہ طرز زندگی کے لیے مشہور تھے۔ اس نے غربت کی زندگی گزارنے کا انتخاب کیا اور اکثر اپنے وسائل کو ضرورت مندوں میں تقسیم کیا۔ روحانیت کے بارے میں ان کا نقطہ نظر زندگی کے تمام شعبوں کے لوگوں کے ساتھ گونجتا تھا۔

4. **لوگوں کے ساتھ تعامل:** اس نے اپنے اجتماعات میں تمام پس منظر کے لوگوں کا خیرمقدم کیا، ان کی ذات یا سماجی حیثیت سے قطع نظر۔ اس جامع نقطہ نظر نے پیروکاروں کی متنوع کمیونٹی میں حصہ ڈالا جسے اس نے فروغ دیا۔

5. **موسیقی اور شاعری:** نظام الدین اولیاء موسیقی اور شاعری سے محبت کے لیے جانے جاتے تھے۔ اس کا خیال تھا کہ یہ فنکارانہ اظہار الہی سے رابطہ قائم کرنے اور روحانی پیغامات پہنچانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ مشہور صوفی شاعر امیر خسرو کے ساتھ ان کی قربت کے بارے میں اچھی طرح دستاویزی دستاویز ہے۔

6. **درگاہ اور میراث:** دہلی میں ان کی درگاہ (قبر) جسے نظام الدین درگاہ کے نام سے جانا جاتا ہے، صوفی عقیدت مندوں اور زائرین کے لیے ایک نمایاں زیارت گاہ بن گئی ہے۔ آج بھی لوگ وہاں روحانی تسکین اور برکت حاصل کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔

7. ** گزرنا اور اثر:** نظام الدین اولیاء کا انتقال 1325 میں ہوا۔ ان کی تعلیمات اور میراث ہندوستان اور اس سے باہر کے صوفیاء اور روحانی متلاشیوں کی نسلوں کو متاثر کرتی رہی۔ تصوف پر ان کے اثرات اور اسلام کی ایک زیادہ جامع اور ہمدرد شکل کو فروغ دینے میں ان کے کردار کو بڑے پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
 


Tuesday, August 22, 2023

ابو زر غفاری

 ابو زر غفاری (جسے ابو ذر الغفاری بھی کہا جاتا ہے) ابتدائی اسلامی تاریخ میں پیغمبر اسلام کے صحابی تھے۔ ان کا شمار پیغمبر کے ممتاز اور وفادار ساتھیوں میں ہوتا ہے، جو اپنے مضبوط کردار اور اسلام کی تعلیمات کے لیے لگن کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہاں ان کی زندگی اور خدمات کا ایک مختصر جائزہ ہے:


**سیرت (سیرت):**
ابو زر غفاری جزیرہ نما عرب کے قبیلہ بنو غفار میں پیدا ہوئے۔ اس نے ابتدائی طور پر اسلام قبول کیا اور عقیدہ قبول کرنے والوں میں سے ایک بن گیا۔ وہ اپنی سادگی، سنتی طرز زندگی، اور پیغمبر محمد کی تعلیمات کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی کے لیے جانا جاتا ہے۔

ابو زر نے اسلام کے ابتدائی ایام میں پیغمبر اسلام کی حمایت اور توحید اور سماجی انصاف کے پیغام کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ اپنی بے باک فطرت اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی اپنی رضامندی کے لیے جانا جاتا تھا، یہاں تک کہ جب اس کا مطلب طاقتور افراد پر تنقید کرنا ہو۔ اس بے باکی نے انہیں عزت بخشی لیکن اس وقت کے حکمران حکام کے ساتھ کچھ تنازعات کا باعث بھی بنے۔

**عظمت (عظمت) اور شراکتیں:**
ابو زر کی عظمت اسلام کے اصولوں کے لیے ان کی غیر متزلزل لگن میں پنہاں ہے، خواہ وہ کسی بھی چیلنج کا سامنا کریں۔ وہ اسلام کے پیغام پر ایمان لانے والے اولین لوگوں میں سے تھے اور مشکلات کے باوجود اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔

اسلام میں ان کی خدمات میں شامل ہیں:

1. **پیغمبر کی حمایت:** ابو زر نے مشکل وقت میں پیغمبر اسلام کے ساتھ کھڑے ہوئے، ان کی اخلاقی حمایت اور مدد کی۔ اس نے ابتدائی دنوں میں اسلام کے پیغام کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا جب اسے مکہ میں قریش قبیلے کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

2. **سماجی انصاف کا فروغ:** ابو زر سماجی انصاف اور مساوات کے ایک مضبوط وکیل تھے۔ انہوں نے اپنے معاشرے کے اشرافیہ کو ان کے جابرانہ طرز عمل پر تنقید کا نشانہ بنایا اور پسماندہ لوگوں کے حقوق کی وکالت کی۔ انصاف اور انصاف کے بارے میں ان کے موقف نے انہیں ایک اصولی اور ایماندار فرد ہونے کی وجہ سے شہرت حاصل کی۔

3. **سیاسی طرز زندگی:** ابو زار نے مادی املاک کی بجائے روحانیت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک سادہ اور سادگی سے زندگی گزارنے کا انتخاب کیا۔ اس نے اپنے آپ کو دنیاوی خواہشات اور مال و دولت سے الگ کر کے دوسرے مسلمانوں کے لیے عاجزی اور ضبط نفس کی مثال قائم کی۔

4. **حدیث کا بیان:** ابو زر کو پیغمبر اسلام (حدیث) کے مختلف اقوال اور افعال کو بیان کرنے کے لئے بھی جانا جاتا ہے، جو محفوظ ہیں اور اسلامی تعلیمات اور فقہ پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔

5. **مدینہ کی طرف ہجرت:** ابو زر نے مکہ سے مدینہ ہجرت (ہجرت) میں حصہ لیا، اسلام اور پیغمبر اسلام کے مقصد سے اپنی وابستگی ظاہر کی۔

اگرچہ ابو ذر غفاری کی زندگی اسلام کے ساتھ ان کی وابستگی اور پیغمبر کی تعلیمات کے لیے ان کی لگن سے نشان زد تھی، لیکن یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ ان کی زندگی اور شراکت کی تفصیلات بنیادی طور پر تاریخی اسلامی ذرائع اور روایات میں پائی جاتی ہیں۔

خواجہ معین الدین چشتی

 خواجہ معین الدین چشتی جنہیں خواجہ غریب نواز بھی کہا جاتا ہے، ایک مشہور صوفی بزرگ اور صوفی تھے جنہوں نے برصغیر پاک و ہند میں اسلام اور تصوف کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں جنوبی ایشیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ قابل احترام صوفی سنتوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔


1141 عیسوی میں سیستان میں پیدا ہوئے، جو موجودہ ایران میں ہے، خواجہ معین الدین چشتی نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت اور تصوف کی روحانی تعلیمات کے لیے وقف کر دی۔ وہ صوفی بزرگ خواجہ عثمان ہارونی کے شاگرد تھے اور انہیں تصوف کا چشتی حکم وراثت میں ملا، جو سادگی، عقیدت اور خدا کے براہ راست تجربے پر زور دیتا ہے۔

خواجہ معین الدین چشتی کا تعلق خاص طور پر موجودہ راجستھان، ہندوستان کے شہر اجمیر سے ہے۔ اس نے وہاں ایک صوفی مرکز قائم کیا اور محبت، ہمدردی اور انسانیت کی وحدانیت کی اپنی تعلیمات کی وجہ سے ایک بڑے پیروکار کو راغب کیا۔ ان کی تعلیمات مذہبی اور سماجی حدود سے بالاتر ہیں، اور مختلف عقائد کے لوگ ان کا احترام کرتے ہیں۔

خواجہ معین الدین چشتی کی تعلیمات کا ایک اہم پہلو "سُلحِ کل" کا تصور تھا جس کا مطلب ہے "سب کے ساتھ امن"۔ انہوں نے مختلف برادریوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دیا اور اس اتحاد کو حاصل کرنے کے لیے روحانی احساس کی اہمیت پر زور دیا۔

خواجہ معین الدین چشتی کا انتقال 1236 عیسوی میں ہوا، لیکن ان کی میراث برصغیر پاک و ہند اور اس سے آگے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ اجمیر میں ان کا مزار، جو درگاہ شریف کے نام سے جانا جاتا ہے، مسلمانوں اور مختلف پس منظر کے لوگوں کے لیے ایک اہم زیارت گاہ بنی ہوئی ہے جو برکت، شفا اور روحانی رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

سالانہ عرس میلہ، جو خواجہ معین الدین چشتی کی برسی کی یاد میں منایا جاتا ہے، ایک بڑا واقعہ ہے جو ہزاروں عقیدت مندوں کو ان کے مزار کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اس تہوار کو قوالی (صوفی عقیدت کی موسیقی)، دعاؤں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے احساس سے نشان زد کیا جاتا ہے۔

مجموعی طور پر خواجہ معین الدین چشتی کی تعلیمات اور زندگی محبت، رواداری، اور روحانی سچائی کی جستجو کی ان اقدار کی مثال دیتی ہے جو صوفی فلسفہ میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔

Saturday, August 19, 2023

قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کا ایک واقعہ

 قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کا ایک واقعہ ہے۔ یہ واقعہ سورہ یوسف (سورہ نمبر 12) میں پیش آیا ہے۔ میں آپکو ہے وکیہ کی مختاراں تفسیر بتاتا ہوں:


واقعہ کا مختصر خلاصہ:
حضرت یوسف علیہ السلام ایک نبی کے بیٹے تھے جو ان کے والد یعقوب علیہ السلام تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے برادران حسد اور بغض سے آپ کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ انہون نے ان کو مارنے کا فیصلہ کیا، لیکن کچھ لوگون نے سوجھو دیا کی انکو ایک کو (کیو) میں پھنک دیا جائے گا۔

اس ارادے کے دل میں انہوں نے حضرت یوسف کو گائے میں ڈالنے کی کوشش کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ہم سے مشکل وقت میں مدد فرما کر بچایا۔ انکے بھائیوں نے انکے کپڑے پھڑ دیے اور انکو کسی میں ڈالنے کے بعد، وہ انکو بچنے کے لیے آئے۔

کچھ دِنو تک کو میں کے بعد، ایک قرضدار شاخس نے حضرت یوسف کو۔ ہم کا نام عزیز تھا اور وہ ملک مصر (مصر) کے محل میں کام کرتے تھے۔ عزیز کی بیوی نے حضرت یوسف سے محبت محسوس نہیں کی لیکن حضرت یوسف نے ان کے فتنے (شرعی فتنے یعنی حرام فعل) سے انکار کردیا۔

عزیز کی بیوی اسے دوبارہ تبدیل نہیں کرنا چاہتی تھی اور اس نے اپنی جھوتی کو آروپ لگاکر نہیں بنایا تھا۔ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کو ان کی خود غرضی اور دین سے محبت سے نجات دلائی۔ ملک مصر کے پاس آئے خواب آئے والے کرنے والے کرنے والے ہو گئے، انکو اس کے سروفیات کی سچائی دی ہے اور ان کا دوسرا خواب بھی صحیح طریقے سے بیان ہوا۔

پھر مالک نے حضرت یوسف کو قید سے آزاد کر کے اپنے گھر بلایا۔ Khwabon ki Tabeer aur Malik Misr ki Rehai ke Baad, حضرت یوسف نی مصر میں آنے والے آنے والی والی اور آنی والی عافیت کا کہنا تھا۔ اس خواب کے ساتھ مصر میں خزانہ جمع کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو کہ بارش کی طرف اشارہ تھا۔

یہ واقعہ حضرت یوسف علیہ السلام کے صبر، تقویٰ اور اللہ پر ایمان کی مثال ہے۔ انہوں نے اپنی مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود کبھی اپنے رب پر بھروسہ نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے محنت اور لگن کی طاقت دی اور آخرت میں عزت دی۔

نوٹ: وکیات کی تفسیر اور کامل فہم کے لیے آپ کو کسی عالم یا مفتی کی مدد لینا چاہیے۔

قطب الدین بختیار

 قطب الدین بختیار، جسے حضرت قطب الدین بختیار کاکی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ہندوستان میں چشتی سلسلہ سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور صوفی بزرگ اور صوفی تھے۔ وہ 12ویں صدی کے دوران رہے اور برصغیر پاک و ہند میں تصوف اور اسلامی روحانیت کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔


قطب الدین بختیار کاکی کے بارے میں چند اہم باتیں یہ ہیں:

1. **زندگی اور پس منظر:** وہ 1173 عیسوی میں ہمدان کے علاقے میں پیدا ہوئے، جو کہ آج کل ایران میں ہے۔ ان کا تعلق بختیاری قبیلے سے تھا، اس لیے اس کا نام "بختیاری" پڑ گیا۔ بعد میں وہ دہلی، ہندوستان چلے گئے، جہاں انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارا۔

2. **روحانی راستہ:** قطب الدین بختیار کاکی اجمیر کے مشہور صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کے شاگرد تھے۔ انہوں نے تصوف کے چشتی حکم کی پیروی کی، جس میں محبت، عقیدت اور الہی کے براہ راست تجربے پر زور دیا گیا تھا۔ وہ ان گنت لوگوں کے لیے روحانی رہنما بن گیا جو اس کی تعلیمات کی تلاش میں تھے۔

3. **تعلیمات اور اثر:** ان کی تعلیمات محبت، عاجزی، اور بے لوثی کی اہمیت کے تصورات کے گرد مرکوز تھیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انسانی زندگی کا آخری مقصد تزکیہ نفس اور انسانیت کی خدمت کے ذریعے خدا کا قرب حاصل کرنا ہے۔ ان کی تعلیمات نے زندگی کے تمام شعبوں کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا، اور انہیں ہندوستان میں تصوف کے پھیلاؤ میں اہم شخصیات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

4. **صوفی حکم:** قطب الدین بختیار کاکی کی تعلیمات نے دہلی میں چشتی نظام کو جنم دیا، جو برصغیر پاک و ہند میں سب سے نمایاں صوفی حکم میں سے ایک بن گیا۔ اس حکم نے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے اور ثقافتی خلیج کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

5. **دہلی پر اثر:** وہ دہلی کے سماجی اور روحانی تانے بانے کا ایک لازمی حصہ بن گیا۔ ان کا مزار، جسے درگاہ قطب الدین بختیار کاکی کے نام سے جانا جاتا ہے، مہرولی، دہلی میں واقع ہے۔ یہ تمام پس منظر کے زائرین اور متلاشیوں کے لئے ایک قابل احترام اور مقبول منزل بنی ہوئی ہے۔

6. **وفات:** قطب الدین بختیار کاکی کا انتقال 1235 عیسوی میں دہلی میں ہوا۔ اس کی موت نے اپنے شاگردوں اور جانشینوں کے ذریعے اس کی روحانی میراث کے تسلسل کو نشان زد کیا۔

7. **وراثت:** ان کی تعلیمات اور روحانی نقطہ نظر نے ہندوستانی معاشرے پر دیرپا اثر ڈالا ہے۔ جامعیت، ہمدردی، اور روحانی روشن خیالی کے حصول پر چشتی حکم کا زور ہندوستان اور اس سے باہر لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کرتا رہتا ہے۔

قطب الدین بختیاری کاکی کی میراث ان کی تعلیمات، روحانی ترتیب کو قائم کرنے میں مدد کی، اور برصغیر پاک و ہند میں تصوف کے پائیدار اثرات کے ذریعے زندہ ہے۔ اس کا مقبرہ زیارت اور عکاسی کی جگہ بنا ہوا ہے، جو لوگوں کو سکون، برکت اور روحانی رہنمائی کے متلاشی ہے۔

حضرت عمر بن عبد العزیز

 حضرت عمر بن عبد العزیز (عمر دوم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) ایک اموی خلیفہ تھے جنہیں اکثر اسلامی تاریخ میں سب سے زیادہ انصاف پسند اور متقی حکمرانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس نے 717 سے 720 عیسوی تک حکومت کی۔ وہ اپنی مختصر لیکن مؤثر حکمرانی کے دوران اسلامی اصولوں کی حکمرانی اور انصاف کو نافذ کرنے کی کوششوں کے لیے جانا جاتا ہے۔


عمر بن عبد العزیز 682 عیسوی میں پیدا ہوئے اور اسلام کے دوسرے خلیفہ عمر بن الخطاب کے پڑپوتے تھے۔ وہ ایسے وقت میں اقتدار میں آئے جب اموی خلافت کو اندرونی بدامنی اور مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ چیلنجوں کے باوجود، عمر ثانی نے انصاف کو برقرار رکھنے، اصلاحات کو نافذ کرنے اور لوگوں کے حالات زندگی کو بہتر بنانے پر توجہ دی۔

اس کی حکمرانی کے کچھ قابل ذکر پہلوؤں میں شامل ہیں:

1. **اصلاحات اور انصاف:** عمر ثانی انصاف اور انتظامی اصلاحات کے لیے اپنی وابستگی کے لیے مشہور ہیں۔ اس نے اپنے پیشروؤں کی کچھ جابرانہ پالیسیوں کو ختم کیا اور تمام شہریوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کو یقینی بنانے کے لیے کام کیا، چاہے ان کی سماجی حیثیت یا پس منظر کچھ بھی ہو۔

2. **فلاحی پروگرام:** اس نے غریبوں کی مدد کے لیے مختلف فلاحی پروگرام قائم کیے، جن میں بیواؤں اور یتیموں کو وظیفہ فراہم کرنا، اور ضرورت مندوں میں اضافی ریاستی محصولات کی تقسیم شامل ہے۔

3. **مذہبی رواداری:** عمر ثانی نے مذہبی رواداری پر زور دیا اور وہ غیر مسلموں کے ساتھ منصفانہ اور احترام کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ انہوں نے مذہبی ٹیکسوں کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے منع کیا اور مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا۔

4. **بیوروکریٹک اصلاحات:** اس نے حکومت کے اندر بدعنوانی کو روکنے کے لیے اقدامات کو نافذ کیا اور قبائلی یا خاندانی رابطوں کی بجائے قابلیت کی بنیاد پر قابل منتظمین کو ترقی دی۔

5. **ٹیکس ریفارمز:** عمر دوم نے ٹیکس کے نظام کو مزید منصفانہ اور غریبوں پر کم بوجھ بنانے کے لیے نظر ثانی کی۔

**سیکھنا اور اسکالرشپ:** وہ سیکھنے کے سرپرست تھے اور علم کے پھیلاؤ کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ اس نے علماء کی سرپرستی کی اور اسلامی تعلیمات کی نقل اور تحفظ کی حمایت کی۔

7. **عاجزی:** عمر ثانی اپنی ذاتی عاجزی اور سادہ طرز زندگی کے لیے مشہور تھے۔ اس نے پرتعیش زندگی گزارنے سے انکار کیا اور معمولی زندگی بسر کی۔

عمر بن عبدالعزیز کا دور حکومت اس وقت ختم ہو گیا جب وہ 720 عیسوی میں 37 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کی مختصر حکومت کے باوجود، ان کی میراث بعد میں اسلامی حکومت اور فقہ پر اثر انداز ہوتی رہی۔ انہیں اکثر ایک عادل اور رحم دل حکمران کے نمونے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس نے اسلامی اصولوں کو برقرار رکھنے اور اپنی رعایا کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔

Thursday, August 17, 2023

سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا

 سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا، جنہیں فاطمۃ الزہرا بھی کہا جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی اہلیہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی تھیں۔ وہ اسلامی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتی ہے اور مسلمانوں کی طرف سے اس کی تقویٰ، علم اور عقیدے میں شراکت کی وجہ سے ان کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ اس کی کہانی اسلام کے ابتدائی دنوں سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔


سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی زندگی کے چند اہم نکات اور واقعات یہ ہیں:

1. **پیدائش اور ابتدائی زندگی**: فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا 605 عیسوی کے لگ بھگ مکہ میں پیدا ہوئیں۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے میں پلی بڑھی اور اللہ سے محبت، ایمان اور عقیدت کے ماحول میں پرورش پائی۔

2. **علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے شادی**: فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا نے علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے شادی کی، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی اور داماد تھے۔ . ان کی شادی اس کی محبت اور عقیدت کی وجہ سے منائی جاتی ہے، اور ان کے کئی بچے تھے، جن میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما بھی شامل تھے۔

3. **کردار اور فضائل**: فاطمہ زہرا (رضی اللہ عنہا) کو اکثر نیکی، شائستگی اور ہمدردی کا مجسمہ کہا جاتا ہے۔ اس کی عاجزی اور اللہ کے احکامات کے لیے لگن تمام مسلمانوں بالخصوص خواتین کے لیے ایک مثال ہے۔

4. **نبی کی بیٹی کی حیثیت سے اہمیت**: فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا اپنے والد کے دل میں ایک خاص مقام رکھتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار فرمایا: فاطمہ میرا ٹکڑا ہے، جس نے اسے تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی۔ یہ ان کے درمیان گہرے رشتے کو اجاگر کرتا ہے۔

5. **مصیبتیں**: فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو اپنی زندگی کے دوران آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا، جس میں مکہ میں مسلم کمیونٹی کی ابتدائی جدوجہد اور اس کے بعد مدینہ کی طرف ہجرت بھی شامل ہے۔ اس نے مشکلات اور اپنی والدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے نقصان کو برداشت کیا اور اپنے والد کے پیغام کی مخالفت کرنے والوں کی مخالفت کا سامنا کیا۔

6. **وفات اور میراث**: فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کا انتقال 632 عیسوی کے لگ بھگ ہوا، اپنے والد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چند ماہ بعد۔ اس کی موت نے پیغمبر کو گہرا دکھ پہنچایا، اور اس نے اسے یہ بتا کر تسلی دی کہ وہ "جنت کی تمام عورتوں کی سردار" ہوں گی۔ اس کی میراث دنیا بھر کے مسلمانوں کو متاثر کرتی رہتی ہے، کیونکہ اس کی زندگی نے اپنے غیر متزلزل ایمان، صبر اور اللہ سے لگن کے ذریعے اسلام کی تعلیمات کی مثال دی۔

یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ فاطمہ زہرا (رضی اللہ عنہا) کی زندگی کی تفصیلات بنیادی طور پر اسلامی روایات اور تاریخی اکاؤنٹس پر مبنی ہیں، اور مختلف ذرائع سے پیش کی گئی روایتوں میں مختلف ہو سکتے ہیں۔ مسلمان ان کا بہت احترام کرتے ہیں اور انہیں ایک محبوب شخصیت کے طور پر یاد کرتے ہیں جنہوں نے اسلام کی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

اللہ کے والیوں کی کہانی"

 "**Allah Walo Ka Waqia**" (واقعہ) یہ عربی زبان کا اصطلاح ہے جو اسلامی تعبیر میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے "اللہ کے بندوں کی کہانی" یا "اللہ کے والیوں کی کہانی"۔ 


یہاں پر کچھ مختصر واقعات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اس اصطلاح سے متعلق ہو سکتے ہیں:


1. **مانی بنی اسرائیل کا واقعہ:** اس واقعہ میں اللہ کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم مانی بنی اسرائیل کی کہانی آتی ہے جنہوں نے اللہ کے کمنڈمنٹس کو نظرانداز کیا اور اپنے اعمال کی بدلی کے باوجود سزائیں برداشت کرنی پڑیں۔


2. **موسیٰ علیہ السلام کی میراج:** اسلامی روایات کے مطابق، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے میراج کا واقعہ بھی موصول ہوا جس میں ان کو اللہ کی حضوریت کا عہد دیا گیا۔


3. **سلیمان علیہ السلام کی کہانی:** حضرت سلیمان علیہ السلام کی قوتوں کی کہانی بھی "اللہ والوں کا واقعہ" کے تحت آتی ہے جہاں انہوں نے اللہ کے فضل اور عطاء کو حاصل کیا اور ان کے پاس مختلف قوتیں دی گئیں۔


4. **صحابہ کرام کی کہانی:** اسلام کی ابتدائی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام کی کہانیاں بھی اس اصطلاح کے تحت آتی ہیں جہاں وہ اپنی ایمانی طاقت، قربانی اور محبت کے ذریعے اسلام کو فروغ دینے میں مصروف رہے۔


یہاں ذکر کردہ واقعات اسلامی تعلیمات اور تاریخ کے مختلف پہلووں کو ظاہر کرتے ہیں جہاں اللہ کے بندے اپنے ایمان، توبہ، تقویٰ، اور کرامات کی بنیاد پر قائم رہتے ہیں۔

Wednesday, August 16, 2023

حضرت محمد ﷺ اور ایک یھودی کا واقعہ

 یہ واقعہ اسلامی تاریخ میں مشہور ہے جو حضرت محمد ﷺ کی مقامت اور ان کی رحمت کی عکاسی کرتا ہے. یہ واقعہ "ربیع الاول" کے پہلے جمعہ کو ہوا تھا، جب حضرت محمد ﷺ نے مدینہ میں قدم رکھایا تھا.


اس وقت، مدینہ میں یہودی مذہب کے لوگ رہتے تھے اور وہ یہ معتقد رکھتے تھے کہ آخری نبی اور مسیح کا وعدہ انہیں ملے گا. ایک یہودی شخص، زائد بن سبط، نے اس وقت کو فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا کہ وہ حضرت محمد ﷺ کی نظر میں آئیں اور ان کی نبوت کو جانچیں کہ کیا وہ واقعی اللہ کے نبی ہیں یا نہیں.


زائد بن سبط نے حضرت محمد ﷺ کے پاس آکر مختلف سوالات پوچھے اور ان کی نبوت کو پرکھنے کی کوشش کی. حضرت محمد ﷺ نے سبب سبقت دی اور ان کے سوالات کو جواب دیا. ان کی مناظر بھری مکالمات کے بعد، زائد بن سبط نے قبول کیا کہ حضرت محمد ﷺ واقعی اللہ کے نبی ہیں اور ان کی نبوت کو قبول کیا.


اس واقعہ سے زائد بن سبط نے اپنے یہودی مذہب کو ترک کر کے اسلام قبول کیا، جو حضرت محمد ﷺ کی مقامت کی ایک بڑی دلیل ہے اور اس کی رحمت اور تعلیم کی اہمیت کو بھی ظاہر کرتا ہے.

Tuesday, August 15, 2023

" ** حضرت ابراہیم (ع) کا وکیہ **"

  ** حضرت ابراہیم (ع) کا وکیہ **" قرآن مجید میں ایک عظیم اور مشہور وکیع ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اسلام کے پیغمبر اور رسول ہیں۔ اس کا قصہ قرآن مجید میں سورہ الصفات میں بیان ہوا ہے۔ خاص میں آپ کو کچھ نہیں ہم وقار کا ذکر کرونگا:


1. ** بت پرستی سے خلافت (بت پرستی کی مخالفت): ** حضرت ابراہیم (ع) نے اپنی زندگی کی پہلی منزل میں اپنے قبیلے کے لوگوں سے کہا کہ جن بتوں کی پوجا کی جاتی ہے ان کی پوجا نہ کی جائے۔ انہونے لوگون کو سمجھایا کے سرف اللہ ہی حقی مبعود ہے اور انکے علوی کوئی مقبول نہیں۔

2. **مورتی تورنا (بت توڑنا):** حضرت ابراہیم (ع) نے آخرت کے راستے میں بت پرستوں کے بتوں کو توڑا اور چھوٹے بتوں کی سمت اشارہ کیا۔ جب لاگ وپاس آئے تو وہ دیکھتے ہیں کے انکی آئیڈیل ٹوٹ گئی ہیں۔ لوگ پریشان ہیں اور ان سے بات کرتے ہیں، ابراہیم (ع) کو نہیں سمجھایا کے مورتی توتی، اسکا کام ٹوٹی مورتی سے نہیں ہوتا۔

3. **آگ میں دلا جانا (آگ میں پھینکا):** انہون نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک دن دینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اللہ تو نہیں آگ کو ٹھنڈا اور سلام کرتا ہے، جس سے ابراہیم (ع) کو کوئی نمبر نہیں ہوتا۔

4. **بچے کی دعا (بچے کی دعا):** ابراہیم (ع) اور ان کی بیوی حضرت سارہ (ع) کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک بات سے نوازا، جسکا نام حضرت اسماعیل علیہ السلام تھا۔ اسماعیل (ع) بھی باد میں ایک پائیگھمبر بنے

5. **آپ کی قربانی کا واقعہ (قربانی کا واقعہ):** وہ وکیہ حضرت ابراہیم (ع) اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل (ع) کے بیچ میں آیا۔ اللہ تعالیٰ نہ ابراہیم (ع) کوخواب میں بتائے کے وہ اپنے بیٹے اسماعیل (ع) کو طیار کرنے کو قربانی کے لیے۔ ابراہیم (ع) نے اپنے بیٹے سے بارے میں بات کی، اسماعیل (ع) کو رازی ہونا کیا کیا؟ جب وہ قربانی کے لیے تیار ہوا تو اللہ تعالیٰ نے قربانی کی جگہ پر ایک بکری رکھ دی۔

یہ کچھ نہیں ہے وقار ہیں جن میں حضرت ابراہیم (ع) کے پائیگھمبری سفر کی کچھ ہم حق شامل ہیں۔ حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توحید کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے اپنی جان قربان کی۔

"خواجہ غریب نواز

"خواجہ غریب نواز" کا اصل نام خواجہ معین الدین چشتی ہے جو ایک مشہور صوفی بزرگ اور صوفی حکم چشتی کے پیشوا تھے۔ وہ 1142ء میں ایران میں پیدا ہوئے اور شہر سبز میں 1236ء میں اجمیر، ہندوستان میں وفات پائی۔

خواجہ معین الدین چشتی کا بنیادی مقصد اسلام کی تعلیم اور محبت کے پیغام کو عام کرنا تھا۔ اس کا سفر ایران سے ہندوستان تک اپنے مقصد کے لیے کیا گیا۔ خواجہ غریب نواز نے اجمیر، راجستھان میں ایک خانقاہ قائم کیا جہاں وو لوگون کی تواججو اور روحانیت کی تربیت کرتے ہیں۔ اس کے اعمال اور اس کا رویہ لوگوں کے دلوں میں محبت اور احترام کا سبب بن گیا۔

ان کا مقبرہ اجمیر میں ہے جس پر آج بھی دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں۔ خواجہ غریب نواز کی درگاہ مسلمانوں کے لیے مختلف قسم کے کھانے کی جگہ ہے، جہاں وہ اپنی روحانیت اور دعاؤں کی تکمیل کے لیے جاتے ہیں۔ عرس میلہ بھی ہر سال منایا جاتا ہے جس میں دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں۔

خواجہ غریب نواز کے وقار میں سے ایک مشہور وکیہ ہے جس میں انہونے اجمیر آنے سے پہلے بازار میں ایک غریب اور تنگدستی میں مبتلا عورت کو ملا۔ وو عورت نے ان سے مدد کی تاریک وست اور خواجہ معین الدین چشتی نے اپنے کھزنے سے چاند کے سکے نکلے اور انھی عورت کو دیئے۔ ان کا تخلص "غریب نواز" اسی واقعہ سے ماخوذ ہے جو درحقیقت ان کی مہربانی اور فیاضی کو ظاہر کرتا ہے۔

خواجہ غریب نواز کے واقعات اور ان کی زندگی کے قصوں نے تصوف اور روحانیت کی شان کو پھیلایا ہے جس سے لوگوں کے دلوں میں محبت اور احترام پیدا 

Saturday, August 12, 2023

*قصہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ

 *قصہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ** حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام کے عظیم ترین اصحاب میں سے تھے اور اسلام کے ابتدائی دور میں ان کا کردار بہت اہم تھا۔ میں آپ کو کچھ ہم وکیوں کا ذکر کروں گا:


1. **اسلام قبول:** حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام کو بول کیا جب انکا دل بدل گیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو صحیح سمجھیں گے۔ ان کے قبول اسلام کا واقعہ بہت مشہور ہے۔ اس نے اپنی زبان سے شہادت دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول کیا۔

2. ** ہجرت مدینہ:** جب مکہ میں مسلمانوں پر ظلم ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کو کہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ہجرت میں شریک ہیں۔ انہوں نے مدینہ پہنچ کر اسلامی برادری کی مدد کی۔

**جنگ بدر:** حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی جنگ بدر میں شرکت کی۔ یہ پہلی مخلص مسلم فوج کی رائے تھی اور اللہ کی مدد سے مسلمانوں کو کفار پر فتح نصیب ہوئی۔

4. **خلیفہ کی حیثیت سے قیادت:** حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی عقیدت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تھی۔ آپ نے اپنے دور خلافت میں اسلام کی تشریح اور تفسیر کو لوگوں تک پہنچانے کا کام کیا۔ انہونے عدالت اور صاف کی تاریخ میں بھری ہوئی ہے۔

5. **قتل:** حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوران، ان کی تیسری خلافت میں، کسی ایک شخص نے بھی حملہ نہیں کیا اور وہ زخمی ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلافت کی اہمیت اور ان کی خدمت کی اہمیت کا انتظار نہیں کیا، بلکہ وہ اتفاق ہو گیا تھا۔

یہ وہ اہم واقعات ہیں جو حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی زندگی سے متعلق ہیں۔ ان کی زندگی اور اسلام کے لیے لگن کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

Friday, August 11, 2023

خدیجہ بنت خویلد

 خدیجہ بنت خویلد، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی تھیں، جن کی زندگی مال و دولت سے بھری ہوئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کا تعلق ان کی زندگی کا ایک اہم حصہ تھا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک امیر سوداگر اور سمرید ویواسائی کی بیٹی تھیں اور تجارت میں امیر تھیں۔


ان کی شہرت اس بات میں ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں 15 سال بڑے تھے لیکن انہوں نے اپنی پہلی بیوی کو چھوڑ کر ان کا ساتھ دیا، ان کے ایمان کو سمجھا اور ان کا راستہ اختیار کیا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو سچا لیا اور مسلمانوں کے پہلے قبیلے کو پاک صاف کیا۔

آپ کی محبت اور الفاظ خلافت کے ابتدائی 10 سالوں میں بھی مضبوط رہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا قیام شروع کیا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ہمیشہ اپنی ہمت اور ہمت کو بلند کیا، خواہ وہ مصبّت کے زمانے میں ہو، مقدّسات کے زمانے میں یا پھر مضوریت کے وقت۔

خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات مکہ میں افسوس کا مقام ہے۔ ان کی وفات 619ء میں ہوئی۔ ان کا نقصان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بہت تکلیف دہ تھا اور آپ نے ہمیشہ ان کی یاد کو زندہ رکھا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا ان کی حقیقی دوست ہیں، ان کے نیک اعمال اور اس کے راستے کو قبول کرنے کا پہلا قدم ہے۔ اس چہرے سے ان کا غرور و تکبر زندہ رہے گا۔

ابو قحافہ ابن عامر ابن عمر ہے

 حضرت ابو قحافہ جن کا پورا نام ابو قحافہ ابن عامر ابن عمر ہے، اسلام کے پہلے خلیفہ ابوبکر (پورا نام: ابوبکر الصدیق) کے والد تھے۔ وہ مکہ میں قبیلہ قریش کے قبیلہ بنو تیم کے رکن تھے اور 545 عیسوی کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔ ان کا سلسلہ نسب قصی ابن کلاب سے جا ملتا ہے جو قبیلہ قریش کے ایک ممتاز آباؤ اجداد تھے۔


ابو قحافہ اپنی برادری میں ایک معزز شخصیت اور پیشے کے اعتبار سے تاجر تھے۔ وہ اپنی دانشمندی اور دیانتداری کے لیے مشہور تھے۔ آپ کے تین بیٹے تھے: عبداللہ (ابوبکر کے والد)، عتیق اور عثمان۔ عبداللہ، جو ابوبکر کے والد تھے، نے ام الخیر سلمہ بنت صخر سے شادی کی، اور ان کے دو بچے تھے: ابوبکر اور عائشہ، جو بعد میں پیغمبر اسلام کی بیویوں میں سے ایک بن گئیں۔

اپنے بیٹے عبداللہ کی وفات کے بعد ابو قحافہ نے اپنے پوتے ابو بکر کی پرورش میں کردار ادا کیا۔ ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام کے پہلے خلیفہ بن جائیں گے۔

ابو قحافہ کے خاندان نے، خاص طور پر ان کے بیٹے ابوبکر کے ذریعے، اسلام کے ابتدائی ایام اور ایمان کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ پیغمبر کی تعلیمات کے لیے اپنی لگن اور اسلامی برادری کے لیے ان کی غیر متزلزل حمایت کے لیے مشہور تھے۔

**حضرت عثمان** کا قصہ

 *حضرت عثمان** کا قصہ **حضرت عثمان بن عفان** رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتایا جا رہا ہے، جو اسلام کے ابتدائی اصحاب اور اسلام کے تیسرے خلیفہ (خلیفہ) میں سے ایک ہیں۔ میں آپ کو انکی زندگی اور ان کی شان دار خدمت کے ننگے میں تھوڑا سا بتاتا ہوں ۔


** حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ 560 عیسوی میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور ان کا اصل نام "عثمان بن عفان ابن ابی العاص بن امیہ ابن عبد شمس" تھا۔ انکا کنیت "ابو عمرو" تھی. ان کی شادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ** حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی تھی لیکن جلد ہی رقیہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا نے دوسری بیٹی سے شادی کی۔ اس کا کاروبار اور امیر ہونے کا طریقہ خاص طور پر کھجور کا کاروبار تھا۔

** حضرت عثمان ** نے اسلام کے ابتدائی ایام میں اپنے مال اور ایمان کی بہت زیادہ مالی مدد کی۔ اس نے اپنی دولت کو اسلام کے لیے استعمال کیا اور خیرات بھی جاری رکھی۔

انکا ایک خاص طریقہ تھا جس سے "مسواک" کہتے ہیں، یعنی ایک چھوٹی سی لکڑی کی مسواک جیسی دانت کیئے صاف کیا۔ انہوں نے بہت اہمیت دی ہے اور سنت کو زندہ رکھا ہے۔

** حضرت عثمان ** نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قرآن کی ایک صحیفہ (مخطوطہ) کی تشریعی اور ترتیب کا کام کیا۔ قرآن کی تفسیر اور تفسیر ان کی عقیدت کے چہرے سے کامل ہوگئی۔

ان کی خلافت کا دور 644 عیسوی تک جاری رہا، اور اسلام سے اس کی عقیدت خوشی اور خوشحالی لے کر آئی۔ لیکن ان کی بڑی عقیدت کی وجہ سے ان کی شہادت ہوئی، اور قتل کا حملہ ہوا۔

کچھ تاریخ احمدیت سے مختار واقیت کے الو میں، اگر آپ کو اور تفسیر چاہیئے، تو آپ کسی مستند اسلامی تاریخ کی کتاب سے یا عالم سے مدد لے سکتے ہیں، کیون کی انکی زندگی اور خدمت کا بیان کچھ آیان تاریخ میں (تاریخ تاریخ) خوبصورت ترین سے کیا گیا ہے۔

Wednesday, August 9, 2023

حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری

 حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری جو "کشف المحجوب" کے مشہور صوفی اور اسلامی اسکالر ہیں، لاہور، پاکستان میں مدفون ہیں۔ ان کا اصل نام ابوالحسن علی ابن عثمان ابن علی الغزنوی تھا اور انہیں 990 عیسوی میں غزنی، افغانستان میں ادا کیا گیا۔ آپ کے والد کا نام حضرت ابو منصور علی بن عبداللہ الحجویری تھا۔


داتا گنج بخش نے ساری زندگی تصوف اور اسلام کی اہمیت کو سمجھنے اور اسے عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے کام کیا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں بہت سفر کیا اور متولیات اور معارف حاصل کیے۔ انہوں نے "کشف المحجوب" میں شاعری کی جو تصوف کے چاہنے والوں اور شاگردوں کے لیے ایک جامع اور آسان تفسیر سے بھری کتاب ہے۔

داتا گنج بخش کا مقام لاہور کے اس تحصیل میں ہے جہاں ان کا مزار داتا دربار یا داتا گنج بخش کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ مزار پاکستان میں صوفی یتیموں اور قرآنی تعلیم کے لیے مشہور ہے اور لوگ ہر سال ان کے عرس (برسی) کے موقع پر جمع ہوتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ داتا گنج بخش نے اپنی زندگی میں بہت کرشمے کیے اور لوگوں کے مسائل حل کرنے میں مدد کی۔ ان کا سلسلۂ (روحانی سلسلہ) چشتی نظامی سے تعلق رکھتا ہے جو کہ تصوف کا مشہور سلسلۂ ہے

Tuesday, August 8, 2023

خواجہ اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ ا

 خواجہ اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ ایک مشہور مسلمان ولی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے۔ انہیں اکثر حضرت اویس قرنی کے نام سے جانا جاتا ہے اور اللہ کے ساتھ ان کی گہری عقیدت اور اپنی والدہ کے لئے ان کی گہری محبت اور احترام کے لئے منایا جاتا ہے۔


حضرت اویس قرنی کی زندگی کے سب سے مشہور پہلوؤں میں سے ایک ان کی اپنی والدہ کے ساتھ غیر متزلزل محبت اور لگن ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی والدہ بوڑھی اور نابینا تھیں اور اس نے ان کی بہت شفقت اور شفقت سے دیکھ بھال کی۔ اسلام پھیلانے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے عزم کی وجہ سے جسمانی طور پر اپنی والدہ سے دوری کے باوجود حضرت اویس قرنی کا دل ان سے جڑا رہا۔ اس نے اپنے والدین کی عزت اور خیال رکھنے کی اہمیت کو ظاہر کیا، خاص طور پر بڑھاپے میں۔

"عشق ما کی شان" سے مراد وہ گہری محبت اور عقیدت ہے جو حضرت اویس قرنی کو اپنی والدہ کے لیے تھی۔ یہ محبت نہ صرف خاندانی پیار پر مبنی تھی بلکہ اس کی جڑ اس کے ایمان اور والدین کے ساتھ حسن سلوک اور احترام کے ساتھ پیش آنے کی اہمیت کو سمجھنے میں بھی تھی۔ اپنی ماں کے ساتھ ان کی عقیدت، والدین کے تئیں رحم دلی اور شفقت سے متعلق اسلامی تعلیمات کی علامت بن گئی۔

یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ حضرت اویس قرنی کی کہانی زیادہ تر زبانی روایت اور صوفی ادب کے ذریعے منتقل ہوتی ہے۔ اگرچہ ان کی زندگی کے تفصیلی تاریخی ریکارڈ نہیں ہو سکتے ہیں، لیکن ان کی میراث مسلمانوں کو اپنے عقیدے اور اپنے خاندان دونوں کے لیے ان کی عقیدت کی تقلید کرنے کی ترغیب دیتی رہتی ہے۔ اس کی مثال اسلام میں والدین کی محبت، احترام اور دیکھ بھال کی اقدار کی یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے۔

باپ کی شان

 "باپ کی شان" یا "باپ کی عظمت" کا مفہوم عام طور پر ولید یا باپ کی عزت اور مقام کی بات کرتا ہے۔ اردو زبان میں "باپ" سے مراد باپ یا باپ ہے اور "شان" اور "عظمت" سے مراد ان کی عزت، مقام اور احمدیت ہے۔ کیا ترہ کے مختلیف قصام کے اقتباسات، ناظمین، اور مزمین لوگون کی نظروں میں باپ کی احمدیت اور عزت کو باپ کو بتاتے ہیں؟


"باپ کی شان" یا "باپ کی عظمت" کو مختلف طریقوں اور آداب میں لکھا جاتا ہے، جیسے:

1. **ماسرتی نظر میں والد کی اہمیت**: اس ستارے کی تحریروں میں والد کی اہمیت اور ان کی حیثیت کو سماجی اور خاندانی سرگرمیوں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ باپ کی کھلی محبت، رہنمائی اور نصیحت کی اہمیت سورج کی روشنی میں نظر آتی ہے۔

2. **خاندانی معاملات اور وقار**: باپ کی عزت اور وقار کو بچانے کے لیے قیمتی اور قیمتی چیزوں سے ایک قیمتی چیز بنائی جاتی ہے۔ باپ کی عزت اور عزت سے پیش آنا میں ہماری زندگی کی طرز عمل میں کسے عصر دلتا ہے، پر تواجو دی جاتی ہے۔

3. **باپ کے قدموں کی شان**: بعض تحریریں باپ کے قدموں پر چل کر، اس کی اصلاح کو بابرکت بنا کر اور اس کے آداب کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہ تحریریں باپ کے دیدار کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہیں۔

4. **عقلیات اور ادبی پہلو**: "باپ کی شان" یا "باپ کی عظمت" پر لکھی گئی ناظمین اور مزمین اکثر عقلیات اور ادبی لہز کے ساتھ لکھی جاتی ہیں۔ میں شعری اور مختلف ادبی انداز میں باپ کی عزت اور احمدیت کا اظہار کیا جاتا ہے۔

5. **والد کی عزت کے لیے اسلامی نقطہ نظر**: اسلامی نقطہ نظر میں بھی والد کی عزت اور وقار کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اسلامی تحقیق اور تاریخ میں والد کے احترام اور اہمیت کو بیان کرنے کے لیے تصانیف بھی موجود ہیں۔

تمام ستاروں کی تحریروں اور مشاہدات سے معلوم ہوتا ہے کہ والد کی عزت و تکریم، معاشرہ، معاشرہ اور خاندان کے افراد کا برتاؤ، وہ چیزیں ہیں جو ہمارے خیالات میں ایک اہمیت رکھتی ہیں۔ باپ کی محبت، رہنمائی اور آداب ہی ہماری زندگی میں قدم رکھتے ہیں، اس لیے انہیں عزت اور اہمیت دینی چاہیے۔

Friday, August 4, 2023

"Love for Muhammad"

 "Ishq-e-Muhammad" (جسے "Ishq-e-Muhammadﷺ" بھی لکھا جاتا ہے) اردو زبان کا ایک جملہ ہے جس کا ترجمہ انگریزی میں ہوتا ہے۔ اس سے مراد وہ گہری محبت، تعریف اور تعظیم ہے جو مسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رکھتے ہیں۔


عشقِ محمدی کا تصور اسلامی روحانیت میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور عقیدت کی مختلف جہتیں شامل ہیں۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری اور آخری رسول ہیں اور اسلام میں ایک منفرد اور بلند مقام رکھتے ہیں۔

عشقِ محمدی کے چند اہم پہلو یہ ہیں:

1. محبت اور احترام: عشق محمد اس شدید محبت اور احترام کی عکاسی کرتا ہے جو مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔ اس کا مثالی کردار، ہمدردی، اور حکمت مومنین کے لیے ان کی روزمرہ کی زندگی میں تقلید کے لیے تحریک کا ذریعہ ہے۔

2. روحانی تعلق: نبی محمد سے محبت کو اللہ کے ساتھ کسی کے روحانی تعلق کو مضبوط کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر کی تعلیمات پر عمل کرنے سے روحانی ترقی ہوتی ہے اور قرب الٰہی ہوتا ہے۔

3. ذکر اور حمد: مسلمان اکثر نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد اور تعریف کی مختلف شکلوں میں مشغول رہتے ہیں، جیسے کہ ان پر درود پڑھنا اور ان کی خوبیوں اور خوبیوں کا ذکر کرنا۔

4. تصوف میں اہمیت: صوفی روایات میں عشق محمدی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ صوفی، جو الہی سے اپنی شدید محبت کے لیے جانے جاتے ہیں، اکثر اس محبت کا اظہار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی عقیدت کے ذریعے کرتے ہیں۔

5. توسل (شفاعت): بہت سے مسلمان توسل کے تصور پر یقین رکھتے ہیں، قیامت کے دن اپنی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت چاہتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے ہاں سفارشی کے طور پر ایک خاص درجہ رکھتے ہیں۔

6. شاعری اور فن: عشق محمد نے مختلف ثقافتوں میں شاعری، موسیقی اور فن کے ایک وسیع جسم کو متاثر کیا ہے۔ شاعروں اور فنکاروں نے اپنے تخلیقی کاموں کے ذریعے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا بہت خوبصورتی سے اظہار کیا ہے۔

7. نبی بطور رول ماڈل: مسلمانوں کے لیے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف ایک روحانی رہنما ہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں ایک رول ماڈل بھی ہیں۔ اس کی زندگی اور اعمال ذاتی طرز عمل، اخلاقیات اور اخلاقیات کے لیے رہنما کے طور پر کام کرتے ہیں۔

مجموعی طور پر عشقِ محمدی اسلامی روحانیت کا ایک لازمی پہلو ہے، جو مسلمانوں کی اپنے پیارے نبی سے گہری محبت اور عقیدت کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ ان کے عالمی نظریہ کو تشکیل دیتا ہے، ان کے طرز عمل کو متاثر کرتا ہے، اور ان کے ایمان کے سفر میں سکون اور تحریک کا ذریعہ بنتا ہے۔

Thursday, August 3, 2023

16 محرم

 16 محرم اسلامی کیلنڈر میں ایک اہم تاریخ ہے۔ محرم اسلامی قمری تقویم کا پہلا مہینہ ہے اور مسلمانوں کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے۔ محرم کا 10واں دن، جسے عاشورہ کہا جاتا ہے، اس مہینے کا سب سے قابل ذکر دن ہے۔


عاشورہ اسلامی تاریخ کے کئی اہم واقعات کی یادگار ہے:

1. حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون کے ظلم سے بچنا: اسلامی روایت کے مطابق 10 محرم کو بحیرہ احمر کی جدائی سے موسیٰ اور بنی اسرائیل فرعون کے تعاقب سے بچ گئے۔

2. امام حسین ابن علی کی شہادت: عاشورہ بنیادی طور پر کربلا کی جنگ کے دوران 680 عیسوی میں پیش آنے والے المناک واقعات سے وابستہ ہے۔ پیغمبر اسلام کے نواسے امام حسین اور ان کے پیروکار اموی خلیفہ یزید اول کی افواج کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ یہ واقعہ شیعہ مسلمانوں کی طرف سے گہرا سوگ منایا جاتا ہے، جو محرم کے دوران، خاص طور پر 9 اور 10 ویں دنوں میں ماتمی تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔

محرم کو منانے کا طریقہ سنی اور شیعہ مسلمانوں میں مختلف ہو سکتا ہے۔ شیعہ مسلمانوں کے لیے محرم غم، ماتم اور یاد کا وقت ہے، جب کہ سنی مسلمان حضرت موسیٰ کے فرعون سے فرار کی یاد میں عاشورہ کا روزہ رکھ سکتے ہیں۔

یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ محرم کی صحیح تاریخ ہر سال مختلف ہو سکتی ہے کیونکہ اسلامی کیلنڈر قمری ہے۔ چونکہ میرے علم میں کٹ آف کی تاریخ ستمبر 2021 ہے، اس لیے میرے پاس سال 2023 میں محرم کی مخصوص تاریخ نہیں ہے۔ 2023 میں 16 محرم کی درست تاریخ جاننے کے لیے، آپ اسلامی کیلنڈر کا حوالہ دے سکتے ہیں یا اپنی مقامی مسجد یا اسلامی سے مشورہ کر سکتے ہیں۔ اقتدار.

Wednesday, August 2, 2023

مدینہ: روشنیوں کا شہر

 مدینہ: روشنیوں کا شہر


مدینہ، جسے مدینہ بھی کہا جاتا ہے، موجودہ سعودی عرب کے مغربی علاقے میں واقع ایک گہری تاریخی اور مذہبی اہمیت کا شہر ہے۔ اس کی رغبت نہ صرف اس کی شاندار تاریخ میں ہے بلکہ اس روحانی چمک میں بھی ہے جو ہوا میں پھیلی ہوئی ہے۔ مدینہ مکہ کے بعد اسلام کے دوسرے مقدس ترین شہر کے طور پر کھڑا ہے، اور یہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری آرام گاہ ہے۔ اپنی بھرپور تاریخ کے دوران، شہر میں متعدد تبدیلیاں آئی ہیں، پھر بھی اس نے ہمیشہ اپنی منفرد دلکشی برقرار رکھی ہے اور دنیا بھر کے لاکھوں مسلمانوں کے لیے ایک مقدس مقام کی حیثیت سے برقرار ہے۔

مدینہ کی تاریخ اسلام کے عروج سے بھی پہلے قدیم زمانے کی ہے۔ اصل میں یثرب کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ شہر جزیرہ نما عرب میں ایک نخلستان تھا اور مختلف علاقوں کو جوڑنے والے تجارتی مرکز کے طور پر کام کرتا تھا۔ یہ ایک کثیر النسل معاشرہ تھا جس کی سرحدوں میں اوس اور خزرج جیسے قبائل آباد تھے۔ تاہم، اس شہر کی تقدیر ہمیشہ کے لیے بدل گئی جب نبی محمد، اپنے پیروکاروں کے ساتھ، 622 عیسوی میں مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے۔ یہ واقعہ، جسے ہجرہ کہا جاتا ہے، اسلامی کیلنڈر کا آغاز تھا۔

مدینہ میں پیغمبر اسلام کی آمد شہر کی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا۔ وہاں کے باشندوں نے اس کا کھلے دل سے استقبال کیا، اور مہاجرین (مکہ سے ہجرت کرنے والے مسلمان) اور انصار (ان کی حمایت کرنے والے مقامی افراد) کے درمیان بندھن نے ایک مضبوط اور متحد اسلامی برادری کی بنیاد ڈالی۔ مسجد نبوی، جسے مسجد نبوی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اس زمانے میں مسجد نبوی ایک شاندار ڈھانچہ ہے جس کی کئی صدیوں میں توسیع ہوئی ہے۔ اصل مسجد ایک سادہ مستطیل عمارت تھی، لیکن یکے بعد دیگرے خلفاء اور حکمرانوں نے حجاج کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے اس میں توسیع کی۔ سبز گنبد، جو پیغمبر محمد کی آخری آرام گاہ کی نشاندہی کرتا ہے، مسجد کی ایک نمایاں خصوصیت اور شہر کی مذہبی اہمیت کا نشان ہے۔

مدینہ کی رغبت اس کے مذہبی ورثے سے باہر ہے۔ ہلچل مچانے والے بازاروں، خوشبودار مسالوں کے بازاروں اور دوستانہ مقامی لوگوں کے ساتھ شہر ایک متحرک ماحول کا حامل ہے۔ زائرین اپنے آپ کو روایتی اسلامی ثقافت میں غرق کر سکتے ہیں جب وہ پرانے شہر کی تنگ گلیوں سے گزرتے ہیں، جسے "المدینہ المنورہ" (روشن شہر) کہا جاتا ہے۔

اپنے مذہبی مقامات کے علاوہ، مدینہ کئی تاریخی مقامات کا گھر بھی ہے۔ مسجد قبا، مدینہ میں پیغمبر اسلام کی بنائی گئی پہلی مسجد، مسلمانوں کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور ایک مقبول زیارت گاہ کے طور پر کام کرتی ہے۔ قبلتین مسجد، جہاں نماز کی سمت (قبلہ) کو یروشلم سے مکہ تبدیل کیا گیا تھا، ایک اور اہم تاریخی مقام ہے۔تعمیر کی گئی تھی اور اسلام کا مرکز بن گئی تھی، جو دور دراز سے زائرین کو راغب کرتی تھی۔625 عیسوی میں ہونے والی احد کی اہم جنگ کا ذکر کیے بغیر کوئی مدینہ پر بحث نہیں کر سکتا۔ یہ جنگ ابتدائی اسلامی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھی، کیونکہ اس نے مسلم کمیونٹی کے ایمان اور عزم کا امتحان لیا۔ جب کہ مسلمانوں کو ابتدائی دھچکاوں کا سامنا کرنا پڑا، آخرکار وہ دوبارہ منظم ہو گئے اور اپنی بنیاد پر قائم رہے، جس نے شہر کی تاریخ پر گہرا اثر چھوڑا۔

صدیوں کے دوران، مدینہ نے مختلف فتوحات اور اقتدار میں تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ یہ امویوں، عباسیوں اور عثمانیوں سمیت مختلف اسلامی خاندانوں کی حکمرانی میں آیا۔ ہر خاندان نے شہر پر اپنے فن تعمیر اور ثقافتی نقوش چھوڑے، اپنے ورثے کو تقویت بخشی۔

جدید دور میں، مدینہ نے نمایاں ترقی اور شہری کاری کا تجربہ کیا ہے۔ سعودی عرب کی حکومت نے ہر سال حج اور عمرہ کے لیے آنے والے عازمین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے شہر کے بنیادی ڈھانچے کو وسعت دینے کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ مذہبی مقامات کے تقدس کو برقرار رکھتے ہوئے زائرین کے تجربے کو بڑھانے کے لیے کئی لگژری ہوٹل، تجارتی مراکز اور نقل و حمل کی سہولیات قائم کی گئی ہیں۔

جدیدیت کے باوجود، مدینہ اپنے جوہر کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے، اور اسے قدیم اور عصری کا ایک غیر معمولی امتزاج بنا دیا ہے۔ شہر کے باشندے اپنی روایات میں گہری جڑیں رکھتے ہیں اور زائرین اور زائرین کے ساتھ گرمجوشی سے پیش آنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔

مسلمانوں کے لیے، مدینہ کا دورہ ایک روحانی طور پر ترقی دینے والا تجربہ ہے، کیونکہ یہ انہیں مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے اور ان کا احترام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ شہر کا سکون اور روحانیت ان زائرین کے لیے امن اور سکون کا ایک انوکھا احساس پیدا کرتی ہے جو اپنے عقیدے سے گہرے تعلق کی تلاش میں آتے ہیں۔

آخر میں، مدینہ جزیرہ نما عرب اور دنیا پر اسلام کے گہرے اثرات کے ثبوت کے طور پر کھڑا ہے۔ اس کی تاریخ، فن تعمیر، اور مذہبی اہمیت اسے عالمی سطح پر لاکھوں مسلمانوں کے لیے بے مثال اہمیت کا مقام بناتی ہے۔ روشنی اور روحانیت کے مینار کے طور پر، مدینہ متنوع پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنی 625 عیسوی میں ہونے والی احد کی اہم جنگ کا ذکر کیے بغیر کوئی مدینہ پر بحث نہیں کر سکتا۔ یہ جنگ ابتدائی اسلامی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھی، کیونکہ اس نے مسلم کمیونٹی کے ایمان اور عزم کا امتحان لیا۔ جب کہ مسلمانوں کو ابتدائی دھچکاوں کا سامنا کرنا پڑا، آخرکار وہ دوبارہ منظم ہو گئے اور اپنی بنیاد پر قائم رہے، جس نے شہر کی تاریخ پر گہرا اثر چھوڑا۔

صدیوں کے دوران، مدینہ نے مختلف فتوحات اور اقتدار میں تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ یہ امویوں، عباسیوں اور عثمانیوں سمیت مختلف اسلامی خاندانوں کی حکمرانی میں آیا۔ ہر خاندان نے شہر پر اپنے فن تعمیر اور ثقافتی نقوش چھوڑے، اپنے ورثے کو تقویت بخشی۔

جدید دور میں، مدینہ نے نمایاں ترقی اور شہری کاری کا تجربہ کیا ہے۔ سعودی عرب کی حکومت نے ہر سال حج اور عمرہ کے لیے آنے والے عازمین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے شہر کے بنیادی ڈھانچے کو وسعت دینے کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ مذہبی مقامات کے تقدس کو برقرار رکھتے ہوئے زائرین کے تجربے کو بڑھانے کے لیے کئی لگژری ہوٹل، تجارتی مراکز اور نقل و حمل کی سہولیات قائم کی گئی ہیں۔

جدیدیت کے باوجود، مدینہ اپنے جوہر کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے، اور اسے قدیم اور عصری کا ایک غیر معمولی امتزاج بنا دیا ہے۔ شہر کے باشندے اپنی روایات میں گہری جڑیں رکھتے ہیں اور زائرین اور زائرین کے ساتھ گرمجوشی سے پیش آنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔

مسلمانوں کے لیے، مدینہ کا دورہ ایک روحانی طور پر ترقی دینے والا تجربہ ہے، کیونکہ یہ انہیں مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے اور ان کا احترام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ شہر کا سکون اور روحانیت ان زائرین کے لیے امن اور سکون کا ایک انوکھا احساس پیدا کرتی ہے جو اپنے عقیدے سے گہرے تعلق کی تلاش میں آتے ہیں۔

آخر میں، مدینہ جزیرہ نما عرب اور دنیا پر اسلام کے گہرے اثرات کے ثبوت کے طور پر کھڑا ہے۔ اس کی تاریخ، فن تعمیر، اور مذہبی اہمیت اسے عالمی سطح پر لاکھوں مسلمانوں کے لیے بے مثال اہمیت کا مقام بناتی ہے۔ روشنی اور روحانیت کے مینار کے طور پر، مدینہ متنوع پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، اتحاد کو فروغ دیتا ہے، اور اسلامی بھائی چارے کے بندھن کو مضبوط کرتا ہے۔ چاہے کوئی ایک عقیدت مند مسلمان ہو یا متجسس مسافر، مدینہ کا دورہ ایک ایسا تجربہ ہے جو روح پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتا ہے

15 محرم

 15 محرم، جسے "عاشورہ" بھی کہا جاتا ہے، اسلامی کیلنڈر میں ایک اہم تاریخ ہے۔ یہ محرم کی 10 تاریخ کو آتا ہے، جو اسلامی قمری تقویم کا پہلا مہینہ ہے۔ عاشورہ مسلمانوں کے لیے مذہبی اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔


1. **امام حسین علیہ السلام کا ماتم**: شیعہ مسلمانوں کے لیے، عاشورہ پیغمبر اسلام کے نواسے امام حسین ابن علی کی شہادت کے سوگ اور یاد کا دن ہے۔ وہ 680 عیسوی میں کربلا کی جنگ میں مارا گیا تھا، اور ان کی المناک موت کو ناانصافی اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی علامت کے طور پر منایا جاتا ہے۔

2. **روزہ**: سنی اور شیعہ دونوں مسلمان عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں، اگرچہ وجوہات اور طریقوں میں فرق ہو سکتا ہے۔ سنی مسلمانوں کے لیے، اس دن روزہ رکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے تاکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کی فرعون کے ظلم سے نجات کی یاد منائی جاسکے۔ شیعہ مسلمانوں کے لیے، اس دن روزہ رکھنا ایک یادگاری عمل ہے اور امام حسین کے مصائب سے ہمدردی کا ایک طریقہ ہے۔

3. **تاریخی واقعات**: اپنی مذہبی اہمیت کے علاوہ اسلام میں 15 محرم کو تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ اسلامی روایت کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اس دن عظیم سیلاب کے بعد جودی پہاڑ پر آرام کرنے کے لیے آئی تھی۔ مزید برآں، بعض روایات میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کو اختیاری عمل کے طور پر روزہ رکھا۔

یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ عاشورہ کو اسلامی روایت میں ایک خاص مقام حاصل ہے، لیکن اس کی تعظیم اور اہمیت مسلم کمیونٹی کے اندر ثقافتی اور فرقہ وارانہ اختلافات کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہے۔

Tuesday, August 1, 2023

14 محرم اسلامی

 سلامی کیلنڈر میں، "محرم" پہلا مہینہ ہے، اور محرم کے 14ویں دن کو "14ویں محرم" کہا جاتا ہے۔ یہ دن مسلمانوں کے لیے خاص طور پر شیعہ برادری کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔


14 محرم کو پیش آنے والے سب سے قابل ذکر واقعات میں سے ایک جنگ کربلا کی یاد میں منانا ہے جو سنہ 680 عیسوی (اسلامی کیلنڈر میں 61 ہجری) میں ہوئی تھی۔ اس جنگ میں پیغمبر اسلام کے نواسے امام حسین ابن علی اور ان کے پیروکار شہید ہوئے۔

شیعہ مسلمانوں کے لیے، یوم عاشور، جو 10 محرم کو آتا ہے، کربلا میں امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی قربانیوں کے لیے سوگ اور یاد کا دن ہے۔ سوگ کی مدت عام طور پر دس دن تک رہتی ہے، جو 20 محرم کو ختم ہوتی ہے۔

یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ چاند نظر آنے کے لحاظ سے اسلامی تاریخیں مختلف ہو سکتی ہیں، اس لیے مقامی حکام یا مذہبی رہنماؤں سے کسی مخصوص سال کے لیے 14ویں محرم کی درست تاریخ کے لیے چیک کرنا ہمیشہ ایک اچھا عمل ہے۔

13 محرم اسلامی

 13 محرم اسلامی کیلنڈر میں ایک اہم تاریخ ہے۔ اسے "عاشورہ" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور مختلف وجوہات کے باوجود سنی اور شیعہ دونوں مسلمانوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔


1. **سنی مسلمانوں کے لیے:** 13 محرم، جسے عاشورہ کہا جاتا ہے، روزے اور غور و فکر کا دن ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے اس دن روزہ رکھا تھا۔ سنی مسلمان اس دن کا روزہ اس واقعہ کی یاد میں رکھتے ہیں اور اللہ کی رحمت اور بخشش طلب کرتے ہیں۔

2. **شیعہ مسلمانوں کے لیے:** عاشورہ کی شیعہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ اہمیت ہے۔ اس دن، وہ 680 عیسوی میں کربلا کی جنگ میں پیغمبر اسلام کے نواسے امام حسین ابن علی کی شہادت کی یاد مناتے ہیں۔ امام حسین اور ان کے پیروکاروں کو اموی خلیفہ یزید اول کی افواج نے بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔ یہ واقعہ شیعہ اسلام میں ناانصافی اور جبر کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہے، اور یہ دنیا بھر کے شیعہ مسلمانوں کے لیے گہری جذباتی اور مذہبی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ مختلف رسومات اور جلوسوں کے ذریعے اس سانحے کا ماتم کرتے ہیں، شہادت، قربانی، اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی اقدار کو اجاگر کرتے ہیں۔

یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اسلامی واقعات کی صحیح تاریخ کا انحصار چاند نظر آنے پر ہے، کیونکہ اسلامی کیلنڈر قمری چکر پر مبنی ہے۔ لہذا، عاشورا کی تاریخ گریگورین کیلنڈر میں ہر سال مختلف ہو سکتی ہے۔ کسی مخصوص سال کے لیے 13ویں محرم کی صحیح تاریخ حاصل کرنے کے لیے، یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ کسی مقامی اسلامی اتھارٹی سے رجوع کریں یا اسلامی کیلنڈر کا حوالہ دیں

شیخ عبدالقادر جیلانی

  شیخ عبدالقادر جیلانی، جسے غوث اعظم (جس کا مطلب ہے "سب سے بڑا مددگار") کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک ممتاز اسلامی اسکالر، فقیہ،...